شوق پھر کوچۂ جاناں کا ستاتا ہے مجھے
شوق پھر کوچۂ جاناں کا ستاتا ہے مجھے
میں کہاں جاتا ہوں کوئی لیے جاتا ہے مجھے
جلوہ کس آئینہ رو کا ہے نگاہوں میں کہ پھر
دل حیرت زدہ آئینہ بناتا ہے مجھے
عاشقی شیوہ لڑکپن سے ہے اپنا ناصح
کیا کروں میں کہ یہی کام کچھ آتا ہے مجھے
لطف کر لطف کہ پھر مجھ کو نہ دیکھے گا کبھی
یاد رکھ یاد کہ تو در سے اٹھاتا ہے مجھے
وحشتؔ اس مصرع جرأت نے مجھے مست کیا
کچھ تو بھایا ہے کہ اب کچھ نہیں بھاتا ہے مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |