شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا

شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
by مجاز لکھنوی

شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
عشق تو رسوا ہو ہی چکا ہے حسن بھی کیا رسوا ہوگا

حسن کی بزم خاص میں جا کر اس سے زیادہ کیا ہوگا
کوئی نیا پیماں باندھیں گے کوئی نیا وعدہ ہوگا

چارہ گری سر آنکھوں پر اس چارہ گری سے کیا ہوگا
درد کہ اپنی آپ دوا ہے تم سے کیا اچھا ہوگا

واعظ سادہ لوح سے کہہ دو چھوڑے عقبیٰ کی باتیں
اس دنیا میں کیا رکھا ہے اس دنیا میں کیا ہوگا

تم بھی مجازؔ انسان ہو آخر لاکھ چھپاؤ عشق اپنا
یہ بھید مگر کھل جائے گا یہ راز مگر افشا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse