شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا

شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
by شاہ اکبر داناپوری

شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
دل میں گھر کر کے مری جان یہ پردا کیسا

با ادب ہیں ترے سب کشتۂ ناز اے قاتل
سانس لیں گے نہ دم ذبح تڑپنا کیسا

آپ موجود ہیں حاضر ہے یہ سامان نشاط
عذر سب طے ہیں بس اب وعدۂ فردا کیسا

تیری آنکھوں کی جو تعریف سنی ہے مجھ سے
گھورتی ہے مجھے یہ نرگس شہلا کیسا

ہاتھ بڑھتے ہیں گریباں کی طرف پاؤں نکال
المدد جوش جنوں سبز ہے صحرا کیسا

اے مسیحا یوں ہی کرتے ہیں مریضوں کا علاج
کچھ نہ پوچھا کہ ہے بیمار ہمارا کیسا

گرم بازاریٔ خورشید قیامت ہوئی سرد
حشر میں داغ محبت مرا چمکا کیسا

کیا کہا تم نے کہ ہم جاتے ہیں دل اپنا سنبھال
یہ تڑپ کر نکل آئے گا سنبھلنا کیسا

منہ دکھائے نہ خدا ہجر کی شب کا اکبرؔ
خوف اس کا ہے ہمیں حشر کا دھڑکا کیسا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse