شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے

شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے
by امداد علی بحر

شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے
مجھ کو فقط اپنی دل ناداں سے گلا ہے

یوں خاک بسر مجھ کو نہ کرنا تھا جہاں میں
اے یار تری زلف پریشاں سے گلا ہے

بیمار محبت کی عیادت کو نہ آئے
کیا ہجر دوا تھا مجھے درماں سے گلا ہے

آنسو جو نہ بہتے تو میں آنکھوں سے نہ گرتا
مجھ کو بہت اس دیدۂ گریاں سے گلا ہے

دم بھر نہیں لگتی ہے پلک سے پلک اپنی
گنواتی ہے تارے شب ہجراں سے گلا ہے

آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر
روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے

بخیے کی ہوس رہ گئی افگار دلوں کو
ہر زخم کو اس سوزن مژگاں سے گلا ہے

گل بو نہ کبھی لائے شکایت ہے صبا ہے
بھیجا نہ کوئی پھول گلستاں سے گلا ہے

نغمے نہ سنائے کبھی احباب قفس کو
گلزار کے مرغان خوش الحاں سے گلا ہے

رہنے کو ٹھکانا نہیں ملتا کہیں اس کو
مجنوں کو ترے گوشۂ زنداں سے گلا ہے

سویا نہ کبھی چاندنی میں ساتھ ہمارے
ہم کو یہی اس ماہ درخشاں سے گلا ہے

روکا مجھے اغیار کو جانے دیا گھر میں
شکوہ سگ جاناں سے ہے درباں سے گلہ ہے

اس سے ہوئی فرقت نہ ہوئی ان میں جدائی
اے بحرؔ مجھے اپنے تن و جاں سے گلا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse