شگوفہ محبت/سمن رخ کا حاملہ ہونا

سمن رخ کا حاملہ ہونا، زلالہ کے باعث جنون کا معاملہ ہونا، حکمائے حاذق کا بلانا، وحشی کو صحت نہ پانا، شاہ صاحب کا بڑی جستجو سے ہاتھ آنا، ان کی دعا سے اچھا ہو جانا


محرر سحر بیان راقم داستان لکھتا ہے کہ اب آذر شاہ شام و پگاہ امورات سلطنت سے فرصت پا کے نئی محل سرا میں جا کے شام کو بعیش و نشاط سحر کرنے لگا، بڑے لطف سے زیست بسر کرنے لگا۔ ہنوز وہ فصل تمام نہ ہونے پائی کہ شاخِ آرزو پھولی اور ثمر لائی۔ سبک دست قابلہ نے خلوت میں آذر شاہ سے عرض کیا کہ مبارک ہو خوشی کا معاملہ ہے، سمن رخ شاہزادی حاملہ ہے۔ بادشاہ کو انتہا کی مسرت ہوئی، حد سے زیادہ سرور ہوا۔ وہ جو ملک کے انتقال کا بغیر اولاد خیال تھا، دل سے دور ہوا، درِ خزانہ وا ہوا، محتاجوں کا بھلا ہوا۔ فقرا مساکین گوشہ نشین کامیاب ہوئے، ہزارہا کار ثواب ہوئے۔

رفتہ رفتہ یہ خبر وحشت اثر زلالہ جو پہلی بی بی تھی اس کے گوش زد ہوئی۔آتش رشک میں بھن کے منہ کو پیٹ سر کو دھن کے خور و خواب وہ خانہ خراب بھولی، سمن رخ کے مار ڈالنے کی کد ہوئی۔ سوت کو ڈاہ خوانخواہ ہوتی ہے۔ دوسری کو چین سے سونے نہیں دیتی، نہ خود سوتی ہے۔ زندگی اس کو وبال ہوئی، کھانا پانی حرام ہوا۔ سمجھی کہ سلطنت میں اسی کو دخل تام ہوا۔ پہلے تو دائیاں مقرر ہوئیں کہ اسقاط حمل ہو؛ جب ان سے کچھ نہ ہو سکا، ساحروں کی رسائیاں ہوئیں کہ زیست میں خلل ہو۔ فرمائش اول یہ تھی سمن رخ کا خون ہو، بعدہ یہ ٹھہری کہ مر نہ جائے تو جنون ہو۔ آخر کار ایک غدار اس پر آمادہ ہوا۔ عرض کی: خداوند نعمت! غلام یہ کام کرے گا، اس کے خون میں ہاتھ بھرے گا۔

القصہ وہ پیرو شیطان علیہ اللعن اپنے کام میں مصروف ہوا۔ یہاں وہ دن آیا کہ گود بھرنے کی تیاری ہوئی، از سرِ نو دلہن بنایا۔ دفعۃً سمن رخ کلام وحشت ناک کرنے لگی، کپڑے لتے کر ڈالے، گریبان چاک کرنے لگی۔ کسی کو گالیاں دیں، کسی کو مار بیٹھی، مسند جلا دی، فرش خاک پر دیوانہ وار بیٹھی۔ دن کو پوچھا تو رات کہی، کسی کی سمجھ میں نہ آئی جو بات کہی۔ حال بہت زار و زبون ہوا، گھنگور جنون ہوا۔ سامان عیش و نشاط سب درہم برہم ہوگیا۔ عین شادی میں غم ہوا، محل میں برپا ماتم ہوگیا۔ آذر شاہ کو شدت سے رنج و ملال ہوا، بھلا چاہنے والوں کا بُرا حال ہوا۔ حکیم طبیب ملازم غیر ملازم درِ دولت پر حاضر ہوئے۔ رمّال منجم بے بلائے چلے آئے۔ خلقت کا ہجوم ہوا، تمام شہر کو یہ حال معلوم ہوا۔ بادشاہ نے طبیبوں سے فرمایا کہ تم لوگ اسی دن کی خاطر ہزارہا روپیہ کی تنخواہ پاتے ہو، گھر بیٹھے چَین سے کھاتے ہو۔ آج امتحان کا دن ہے۔ بتاؤ تو مرض ہے یا جن ہے۔ بہرکیف اگر اس ہفتے میں ماہ دو ہفتہ کا مزاج اعتدال پر آیا تو سب کو نقد و جنس خلعت و انعام فراخورِ حال دوں گا۔ حوصلہ سے باہر زر و مال دوں گا۔ وگر خدانخواستہ اس کا یہی طور رہے گا تو تم پر ستم و جور رہے گا، ایک ایک کا پیٹ چاک کروں گا، بُری طرح سے ہلاک کروں گا۔ وہ وہ طبیب حاذق تھا کہ انسان تو کیا سر بے مغز آسمان کا سودا کھوتا تھا، مگر کچھ کسی سے نہ ہوتا تھا۔ غرض کہ دوا موقوف ہوئی۔ جھاڑ پھونک کی دعا ہونے لگی۔ صدقہ رد بلا ہے، اس سے اور شدت سوا ہونے لگی۔

ایک شخص سیاح شہر و دیار نیرنگ دیدۂ روزگار ملازمان سرکار میں حاضر تھا۔ بادشاہ کا رنج و ملال دیکھ نہ سکا۔ مقربان بارگاہ سے کہا کہ وہ جو سرزمین اجمیر ہے، وہاں ایک خدا کا شیر ہے۔ اسد علی شاہ، اُس مقبول بارگاہ کا نام ہے۔ ان کا اچھا کرنا اُن کا کام ہے۔ جس عارضے کا مریض وہاں جاتا ہے، اس مسیحا نفس کے ہاتھ سے شفا پاتا ہے۔ پہلے دوا ہے، اس کے بعد تیرِ دعا ہے۔ زہے نصیب جو ایک چلہ اس خدا کے حبیب سے جدا نہ ہو۔ مجھے توپ کے منہ میں توپنا، اگر سمن رخ کو شفا نہ ہو۔ جو کہا وہ ہوگیا۔ دست بستہ حکم و قضا و قدر ہے۔ فرشتہ خصال وہ بشر ہے۔ صدہا کا جنون دور کیا۔ جنون کو پھونکا مارا ہے، ہزارہا پری کوشیشے میں اتارا ہے۔ بھوت پلیت بے پلیتے صورت دیکھ کے بھاگ جاتا ہے۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلاتا ہے۔ جس دم یہ ماجرا آذر شاہ کو معلوم ہوا، فوراً وزیر کو بلایا، فرمایا: اسی دم بسبیل ڈاک اجمیر کو جاؤ۔ جس طرح سے بنے شاہ صاحب کو تلاش کر کے لاؤ۔ یاد رکھنا اگر تم کو دیر لگی، سمن رخ کی جان گئی، ہمارا زندہ رہنا بہت محال ہے،بے اس کے زیست وبال ہے۔

وزیر مطیع فرمان جلوریز منزل مقصد کی طرف گرم خیز ہوا۔ اور ابر و باد سے جلد وہ نیک نہاد اجمیر میں داخل ہوا، مگر شاہ صاحب کا نشان، بود باش کا مکان جنگل سنسان صحرائے بے پایاں میں سُنا، اسی سمت چلا۔ معاذ اللہ! پناہ بخدا! بیابان خوفناک جہاں انسان کا کوسوں پتا نہیں، نام نہیں۔ دشت کا آغاز تو دیکھا، انجام نہیں۔ ہر سمت سے سائیں سائیں کی آواز کان میں آتی تھی۔ کلیجہ ہلتا تھا، ہیبت سے جان نکلی جاتی تھی۔ سخت پریشان، ہر سو نگران۔ گھبراتا تھا، پاس نمک یہاں تک تھا، اس پر تلاش میں چلا جاتا تھا۔ بعد خرابی بسیار معائنہ گل و خار بر سر چشمۂ آب اس مضطر و بے تاب کا گذر ہوا۔ چند درخت گنجان، پھول پھل جدا جدا، شاخیں باہم چسپاں اسی میں نے کا جھوپڑا، نئے ڈھنگ کا مکان، دیوار نہ در، وحشت کا گھر، چھت اد چھت غائب، فقط دالان کا نقشہ، کوٹھریاں ڈہی مگر بڑی شوکت و شان کا نقشہ، ایک دو تین گز کا چوترہ، چار پانچ پُرانے بانس کا چھپر جھکا پڑا ؂

پانچ بتی کا کہنہ سا چھپر

ساتھ سایہ کے دھوپ آٹھ پہر


پھٹا پرانا سا بوریا بچھا، اس پر ایک بزرگ سر بزانو اکڑو بیٹھا۔ وزیر دیکھ کر تھرانےلگا، خوف سے دل ہل گیا، کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ چہرہ مثل بدر تاباں تھا، مگر ریاضت شاقہ سے جسم کا ہیدہ بمرتبہ کمال، چہرا استخوان بست و نہم کا ہلال، گوشت کا نام نہیں فقط کھال۔ سفید ڈاڑھی ناف تک نظر آئی، کپڑےکی قسم سے لنگی پائی۔ یہ رعب و جلال چند مشت استخوان پر، عنایت ذو الجلال اس نحیف و ناتوان پر۔ دل سے کہا یہ ہیبتِ حق ہے جو میرے پاؤں نہیں جمتے۔ اس کوچے میں لڑکھڑاتے ہیں۔ سب آثار عظمت اور بزرگی کے نظر آتے ہیں۔ بہت جھکا ادب سے، سلام کیا۔ چندے سکوت رہا، پھر کلام کیا کہ یہ محتاج دور سے حاجت لایا ہے۔ بادشاہ ہمارا مضطر ہے، دین و دنیا سے بے خبر ہے۔ اس نے بصد عجز و منت آپ کو بلایا ہے۔ فقیر نے مسکرا کر جواب دیا کہ بادشاہ خود حاجت روا ہے۔ اس کو فقیر کی کیا پروا ہے۔ اور بابا سنو! جس دن سے دنیائے دون کی بے ثباتی نظر آئی، اس ہرجائی قحبہ کو بے وفا سمجھ کے چھوڑا۔ اہل دنیا اس کے مبتلا ہیں، نام پر فدا ہیں۔ ان سے نہ بنی۔ بگڑ کر منہ موڑا۔ اس دن سے شاہ و گدا اپنی نظر میں ایک ہیں، مساوی بد و نیک ہیں۔ خواہش مٹا دی۔ غرض الغرض اٹھا دی، بستی چھوڑی، ویرانہ پسند آیا۔ اینٹ کا گھر مٹی کرکے کا کاشانہ پسند آیا۔نہ کچھ پاس ہونے کی شادی، نہ نہ ہونے کا غم ہے، دونوں حال میں ایک سا عالم ہے ؂

ہے یہ تقریر عارفان الست

غمِ نیست ہو نہ شادیِ ہست


وزیر نے عرض کی: پیر و مرشد! بے چراغ خانۂ سلطان ہوتا ہے۔ بنا کھیل بگڑتا ہے، بسا ہواگھر ویران ہوتا ہے۔ خلق خدا کو اس کی ذات سے راحت ملتی ہے، سب کا بھلا ہوتا ہے۔ مقام غور ہے ایسے شخص کا مٹ جانا بُرا ہوتا ہے۔ یہ کہہ کے سب داستان آذر شاہ کی کیفیت بیاہ کی، سمن رخ کا حاملہ ہو کے مجنون ہونا، اس لیلی شمائل کے اندوہ میں بادشاہ کا ناحق خون ہونا مشرح بیان کیا۔ سچی بات اثر رکھتی ہے۔ شاہ صاحب کو یہ ماجرا سن کے تاسف ہوا، فرمایا: اے وزیر! یہ تیرے بادشاہ کی خوبی تقدیر ہے، جو مجھ کو رنج ہوا۔ اب بھی جو کسی کی ایسی حاجت گوش زد ہوتی ہے تو خوف خدا سے اس کی کار برآری کی کد ہوتی ہے۔ مرشد کا شعر یاد آ جاتا ہے، پڑھ کر فقیر گھبراتا ہے ؂

کبھی حوالۂ حرماں کسی کی آس نہ ہو

عدو کا بھی جو عدو ہوا سیر یاس نہ ہو


ورنہ بادشاہ کی ملاقات کی خواہش ہے، نہ محتاج کی صحبت سے بیزاری ہے۔ الّا اس کے اضطرار سے خوف عتاب جناب باری ہے۔ بسم اللہ تم برسرِ ڈاک روانہ ہو۔ فقیر منزل و مقام دیکھتا آتا ہے۔ منزل رساں کی قدرت دیکھنا کون جلد پہنچ جاتا ہے۔ وہاں تو ساز و سامان شاہانہ تھا، وزیر بادشاہوں کا جانا آنا تھا اور یہاں فقیر کا کارخانہ تھا۔ خیمہ نہ ڈیرا نہ کہیں ٹھہر جانا، نہ بسیرا تھا۔ ایسے کے ساتھ کب ہوا پہنچے جو ادھر قصد کرے اُدھر جا پہنچے۔

غرض کہ وزیر منزل اول میں تھکے۔ شاہ صاحب ایک جست میں برجستہ شہر میں داخل ہوئے۔ آذر شاہ سے ملاقات ہو گئی، یہ بات پہلے کرامات ہو گئی۔ سمن رخ کو دیکھا، حال سنا، بادشاہ کو تسلی دی۔ کہا: اللہ کو یاد کرو، دلِ غم رسیدہ شاد کرو ۔ وہ شافیِ مطلق ہے، دفعِ بلا کرے گا۔ فقیر بہ دل دعا کرے گا۔ ایک ہفتہ تامل کیجیے۔ عروج ماہ میں پانچویں تاریخ پنجشنبہ ہوگا۔ اس دن سے فقیر بدرگاہ رب قدیر دست دعا بلند کرے گا۔ اگر مالک میری گریہ و زاری، تمھاری بے قراری پسند کرے تو مطلب مل جائے، سمن رخ اس بلا سے نجات پائے ؂

دم عیسےٰ کے برابر ہے دمِ درویشاں

باعثِ رد بلا ہے قدمِ درویشاں


اور آج کے دن سے مقرر یہ بات کیجیے کہ تا شفا اس مریض کے روز خیرات کیجیے۔

فوراً صدہا من کی پخت مقرر ہوئی۔ غریب غربا محتاج مع زر نقد پانے لگے، پیٹ بھر کے کھانے لگے۔ تیرِ دعا سپر چرخ تک پہنچانے لگے۔ اور بروز معہودہ عبد برگزیدۂ معبود ایک مکان پاک صاف آراستہ کر کے چلے میں بیٹھا، وہیں گوشہ میں شاہزادی کو جا دی۔ مرید ان کا اعجاز شاہ ہمراہ تھا۔ اس سے فرمایا: میاں! تا ظہور اثر دعا کچھ باتیں دلچسپ کر کے تم تو شاہ زادی کا دل بہلاؤ، فقیر ہمہ تن صرف دعا ہوتا ہے۔ دیکھو یہ رات حرف و حکایات میں کیسی کٹتی ہے۔ دم سحر یہ سحر کا کارخانہ کیا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ زبان پر لا وہ بندۂ خدا حجرے میں جا عجز و انکسار سے مصروف مناجات بدرگاہ بر آرندۂ حاجات خشوع و خصوع رجوع قلب سے بصد گریہ و زاری ہوا۔ مرید زبردست مرشد پرست سحر بیانی تقریر زبانی سے متوجہ دلداری آمادۂ غمخواری ہوا۔ کہا: شاہزادی! فقیر کو عالم سیاحی دشت نوردی جہاں گردی میں عجیب و غریب حادثے پیش آئے۔ فلک شعبدہ باز عربدہ ساز کہن نے نئے نئے سانحے دکھائے۔ اگرچہ طول طویل داستان ہے، لیکن قابل تقریر وہ بیان ہے۔ بگوش دل متوجہ ہو کے اگر سنیے، غالب ہے ملال خاطر دور ہو، طبیعت مسرور ہو۔ وہاں شاہ صاحب اسم باری کئی باری پڑھ چکے تھے۔ اثر کی کیفیت جو حاضر تھے ان کے قیاس میں آ گئی کہ شاہزادی از خود رفتہ وحشت زدہ تھی یا فوراً حواس میں آ گئی۔ جواب دیا: بہت خوب، کچھ فرمائیے۔ حکایت دلچسپ اگر یاد ہو، امداد ہو، سُنائیے۔