شہرت ہے میری سخن وری کی
شہرت ہے میری سخن وری کی
ہندی میں ہے طرز فارسی کی
کیوں ذکر وصال سے خفا ہو
یہ بات تو ہے ہنسی خوشی کی
اللہ رے نزاکت لب یار
بت خانے پڑے جو مے کشی کی
شکوہ نہ کروں میں تا لب گور
دشمن بھی کہے کہ دوستی کی
ہو دیدۂ مہر شبنم افشاں
حالت جو دکھاؤں بے کسی کی
جب موت کسی طرح نہ آئے
گھبرا کر ہم نے عاشقی کی
خاموش ہو شمع روتے روتے
تقریر کروں جو خامشی کی
اے موت عذاب سے چھڑایا
اس قید سے تو نے مخلصی کی
بلبل کو کیا اسیر گل دام
صیاد نے خوب منصفی کی
دیکھا جو وہ رشک ماہ کنعاں
رنگت ہوئی زر دستری کی
پہنچے نہ برنگ شانہ تا زلف
کیا بخت سیہ نے کوتاہی کی
دوزخ کی طرح جلیں نہ زاہد
جنت میں بھی ہم نے مے کشی کی
نالے کیے چپکے چپکے روئے
کیا کیا غم یار کی خوشی کی
غولوں نے لحد پہ ہوں وہ وحشی
آنکھوں سے آ کے روشنی کی
اے عرشؔ خدا و بت احد ہیں
مشرک کو سمائی ہے دوئی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |