شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی

شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
by اکبر الہ آبادی
295376شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لیاکبر الہ آبادی

شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
پھر تو یاروں نے بھجن گانے کی کھل کر ٹھان لی

مدتوں قائم رہیں گی اب دلوں میں گرمیاں
میں نے فوٹو لے لیا اس نے نظر پہچان لی

رو رہے ہیں دوست میری لاش پر بے اختیار
یہ نہیں دریافت کرتے کس نے اس کی جان لی

میں تو انجن کی گلے بازی کا قائل ہو گیا
رہ گئے نغمے حدی خوانوں کے ایسی تان لی

حضرت اکبرؔ کے استقلال کا ہوں معترف
تابہ مرگ اس پر رہے قائم جو دل میں ٹھان لی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.