صاف باطن دیر سے ہیں منتظر

صاف باطن دیر سے ہیں منتظر
by عزیز لکھنوی

صاف باطن دیر سے ہیں منتظر
ساقیا خذ ما صفا دع ما کدر

پھر حیات چند روزہ کا مآل
موت پر جب زندگی ہے منحصر

رت بدلتے ہی فضا میں گونج اٹھا
نغمۂ یا ایہا الساقی ادر

ایسے وادی میں نہیں کیا رہ نما
خود جہاں گم کردہ منزل ہوں خضر

مشورہ رحمت سے کر اے عدل حق
کیا سزا جو ہو خطا کا خود مقر

کیوں ہے اسرار دو عالم کی تلاش
پردۂ دل میں ہیں تیرے مستر

کیوں مری دیوانگی بدنام ہے
ان کی آنکھیں خود ہوئیں جب مشتہر

الحذر پیر فلک کی سرکشی
دیکھنے میں تو ہے اتنا منکسر

کھو چکا آنکھیں مگر اے برق حسن
دل رہے گا اور رہے گا منتظر

سن لے فریاد عزیزؔ جاں بہ لب
رب انی مستغیث فالفقر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse