صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ

صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316391صحبت ہے ترے خیال کے ساتھغلام علی ہمدانی مصحفی

صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
ہے ہجر کی شب وصال کے ساتھ

اے سرو رواں ٹک اک ادھر دیکھ
جی جاتے ہیں تیری چال کے ساتھ

ہے تیغ و کمان کی سی نسبت
ابرو کو ترے ہلال کے ساتھ

مت زلف کو شانہ کر مرا جی
وابستہ ہے بال بال کے ساتھ

دل اپنا ہنوز سادگی سے
پیچیدہ ہے زلف و خال کے ساتھ

مہمان تھا کس کا تو شب اے ماہ
آتا ہے جو اس ملال کے ساتھ

رخساروں نے کچھ عرق کیا ہے
کچھ چشم ہے انفعال کے ساتھ

میں شیر ہوں بیشۂ سخن کا
صحبت ہے سگ و شغال کے ساتھ

اکسیر ہے مصحفیؔ کا ملنا
یعنی کہ وہ ہے کمال کے ساتھ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.