صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی

صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی
by ناطق لکھنوی

صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی
ہم کس سے کہیں دل ہے سینے میں ہمارے بھی

تا صبح گرے آنسو اور آنکھ نہیں جھپکی
اس بات کے شاہد ہیں ڈوبے ہوئے تارے بھی

دل کھو کے ملا ہم کو جو کچھ وہ بہت کچھ ہے
اس عشق کی بازی میں ہم جیتے بھی ہارے بھی

جو کچھ تھا مرے دل میں میں نے تو کہا تم سے
اب تم بھی کہو جو کچھ ہے دل میں تمہارے بھی

کیوں بحر محبت میں ہے خوف اجل ناطقؔ
مرنے کو تو مرتے ہیں دریا کے کنارے بھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse