صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
تمہیں جور اس قدر نہیں آتے
پھر تسلی کی کون سی صورت
خواب میں بھی نظر نہیں آتے
آتے ہیں جب کہ ناامید ہوں ہم
کبھی وہ وعدے پر نہیں آتے
روز کے انتظار نے مارا
صاف کہہ دو اگر نہیں آتے
نہیں معلوم اس کا کیا باعث
روز کہتے ہیں پر نہیں آتے
اور تم کس کے گھر نہیں جاتے
ایک میرے ہی گھر نہیں آتے
اب تو ہے قہر آپ کا جانا
نہیں آتے اگر نہیں آتے
سچ ہے حیلے مجھی کو آتے ہیں
اور تمہیں کس قدر نہیں آتے
ان کو میں اس طرح بھلاؤں نظامؔ
یاد کس بات پر نہیں آتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |