صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
میں فقط درد ہوں جس میں کوئی آواز نہیں
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
وہ مزے ربط نہانی کے کہاں سے لاؤں
ہے نظر مجھ پہ مگر اب غلط انداز نہیں
پھر یہ سب شورش و ہنگامۂ عالم کیا ہے
اسی پردے میں اگر حسن جنوں ساز نہیں
آتش جلوۂ محبوب نے سب پھونک دیا
اب کوئی پردہ نہیں پردہ بر انداز نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |