صفحہ 1 - ساحل سمندر


ساحل سمندر

میں نے سعدیہ کو شام کے کھانے پر نہیں پایا۔ دوسرے دن ناشتہ اور شام کے کھانے پر بھی باہرنہ آئ۔

ماں نے کہا ”وہ روتی ہے۔میری "ساد" بہت روتی ہے“۔

میں نے ابا جان کو خاموش دیکھا۔ وہ افسردہ تھے۔ میں نے اباجان کو پہلے اتنا سوگوار کبھی نہیں دیکھا۔

میں اپنے کمرے میں سر پکڑ کربیٹھ گیا۔ کیا یہ میری برائ ہے جس کی وجہ سے میری لاڈلی، میری ساد مجھ سے نفرت کرتی ہے۔یا یہ میرے جنس کی برائ ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ دل نے کہا تم اپنی ذمہ داری کو قبو ل کرو اور سعدیہ کے شانہ بہ شانہ اس برائ کو مٹانے میں حصہ لو۔ یہ مسئلہ صرف پختونی، پنجابی، سندھی، بلوچستانی یا مہاجری نہیں ہے۔ اور نہ ہی پاکستانی بلکہ اسلامی ہے۔

لیکن اس مسئلے کا تو حل ایک ہے۔اچھائ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ میری بہن بیمار ہے۔ میری گل، میری بلبل مرچکی ہے۔

کیوں نہ میں تمام پاکستان کی بہنوں کو بتاؤں کہ ان کی بہن کے ساتھ کیا ہوا۔شاید پختون کی خان زادیوں اور ملک زادیوں کو شرم آۓ کہ ان کے گاؤں اور شہروں میں مرد گلوں کو نوچ کر کچل دیتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں کس طرح سے اپنی بہن کے زخم کو شفا دے سکتا ہوں۔

رات ہوچکی تھی۔ چودھویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔ساحل پر روشنی تھی۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ اور ساحل کے سامان کا بیگ اٹھایا۔ ایک اورکمبل اور چادر بھی رکھی۔ماں ، میں رات ساحلِ سمندرپر گزاروں گا۔ ماں نےگرم چاۓ کی تھرماس بوتل میرے بیگ میں رکھ دی۔ساحلِ سمندر ہمار ے گھر کی سیڑھیوں کے پاس تھا۔

میں نے چادر زمین پر بچھائ اور لیپ ٹاپ کھولا۔ کہانی کا عنوان ”گل کی کہانی“

میں نے اس پر لکیر کھینچ دی گل کی کہانی۔

پٹھان کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

پختونخواہ کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

پاکستان کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

میں نے سوچا کہ ظلم اورمظلوم کی کہانی تو ہر کہانی نویس لکھےگا۔ مگرمیں تو اس کا حل لکھوں۔اس کے عنوان کاتعلق تو مرد اور وحشی پن سے ہونا چاہۓ۔