صفحہ 2 - ساحل سمندر

”ہمارے پا کستان کے نامرد“

” یہ کہانی ایک گل کی ہے۔

وہ ایک بلبل کی طرح تھی۔

وہ پھولوں کی کلیوں طرح نازک تھی۔

وہ فرشتوں کی طرح معصوم تھی۔

وہ ستاروں کی روشنی تھی۔

وہ میری بہن تھی۔

وہ میر ی سعدیہ تھی۔

وہ میری بھی تو گل تھی۔

وہ پورے پاکستان کی گل تھی۔

وہ زندگی کے صرف بارہ سال دیکھ پائ۔

ذلیل نامردوں اوروحشیوں نے اس ننھی کی بے عزتی اور بے حرمتی کی۔اور اس کی جان لی”۔

میری لکھائی میں روانی تھی۔میرے آنسو بھی اسی روانی سے بہہ رہے تھے۔جب میں نے اپنی کہانی کااختتام لکھا تو صبح کے چا ر بج رہے تھے۔ میں نے لیپ ٹاپ کو بند کیا اور سیڑھی چڑ کر اوپر پہنچا۔ ماں کھلے برآمدے میں آرام دہ کرسی پر ہلکی نیند میں سورہی تھی۔اس کی آنکھ کھل گئ۔اس نے کہا۔

”وہ ساری رات یہاں بیٹھی تمہیں دیکھتی رہی۔ میں 15 منٹ پہلے اس کو سُلا کر آئ ہوں “۔

ماں نے دھیرے سے سعدیہ کے کمرے کا دروازہ کھولا۔میری گل گہری نیند میں سورہی تھی۔ میں نے لیپ ٹاپ کو سعدیہ کی میزپر رکھا اور ایک پرچہ پر اس کو ایک نوٹ لکھا۔

میں نے دروازہ بند کرکے ماں سے کہا۔” اب ہر چیز ٹھیک ہوگی۔میں ساحلِ سمندر پرسوؤں گا“۔