صفحہ 1 - سوچ ایک طریقہ ہے

سوچ ایک طریقہ ہے

کھانے کے بعد ہم سب کتب خانہ میں جمع ہوۓ۔

اباجان اور اماں جان اپنی پسندیدہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ گۓ۔ میں نے اور سعدیہ نےصوفہ کا رخ کیا۔

جب ہم سب لوگ آرام سے بیٹھ گۓ تو اباجان نے مجھ سے کہا۔ ” ایسا لگتا ہے کہ تم اور تمہاری بہن اتفاقاً اس مسئلہ سے آگاہ ہوۓ جس نے تم کو ذہنی اور جذباتی طور پر دُکھ دیا ہے۔اوراب تمہاری بہن مسئلے کوحل کرنے کی ابتداء کرنا چاہتی ہے۔ سکینہ جب تم سے مخاطب ہوئ تو وہ جانتی تھی کہ اس مسئلے کو جاننے کے بعد تم اس سے جدا نہ ہوسکو گے۔کیا حقیقت میں یہ ایک اتفاق تھا؟ میں تم کو اس کا خود فصیلہ کرنےدوں گا۔ میرا کام اب یہ ہے کہ تم کو بتاؤں کہ وہ کیاخصوصیات ہیں جو ایک شخص استعمال کرکے ہرمشکل میں اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے اور وہ زندگی کی تمام مشکلات کو عبورکرکے اپنےعزیزخوابوں کو پورا کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص تمام کوششوں کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے“۔

کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ اس خاموشی میں اپنے سانس کو سن رہا تھا۔

” سوچ ایک خیال ہے۔ جب اس سوچ میں مقصدِ مقرر ، قائم مزاجی اورخواہشِ شدید کو شامل کریں تو اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے“۔ ابا جان نے کہا۔

” دماغ جو سوچتا ہے اوراُس سوچ پریقین رکھتا ہے تو دماغ اس سو چ کا وسیلہ حاصل کر لیتا ہے“۔

سعدیہ اٹھ کراباجان کے پاس گئ اوراُن کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا۔

” اباجان آپ میری زبان میں بولیں نا۔ مجھ کوالفاظ تو سمجھ میں آگۓ لیکن معنی سمجھ نہیں آۓ“۔

اباجان نے کہا”تم یہاں میرے پاس بیٹھواور غور سے سنو“۔

بجلی کے بلب کا نام لو تو فوراً ایڈیسن کا خیال آتا ہے۔ایڈیسن کا کاروبار بہت بڑا تھا، ایڈیسن نے ہزارہا چیزیں ایجاد کیں۔ ان میں سے ایک ڈیکٹاٹینگ کی مشین بھی ہے۔

ایڈوین۔سی۔بارنیس ایک معمولی شخص تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ ایڈیسن کے کاروبار کا حصہ دار ہوجاۓ۔ اس کی خواہش شدیداورمقررتھی۔ جب یہ خواہش، سوچ میں تبدیل ہوئ تواس کو دو مشکلات نظرآئیں۔ ایک اس کے پاس ریل کے ٹکٹ کوخریدنے کے پیسے نہ تھے۔ دوسرے وہ ایڈیسن کونہیں جانتا تھا۔لیکن نہ صرف اس نے کسی نہ کسی طریقے سے ریل کا ٹکٹ خریدا بلکہ وہ ایڈیسن کے آفس میں پہنچ گیا۔