صفحہ 2 - سوچ ایک طریقہ ہے

” میں آپکا شریکِ کاروبار بننا چاہتا ہوں“۔ بارنیس بولا۔

ایڈیسن نے ایک غیراہم شخص کو اپنے سامنے دیکھا۔ ایڈیسن عالم اور تجربہ کار تھا۔ اس نےدیکھا کہ بارنیس اپنےارادے کا پکا ہے۔اور یہ آسانی سے نہیں جاۓ گا اوراس وقت بارنیس اس قابل نہیں جو وہ چاہتا ہے۔ ایڈیسن نے بارنیس کو اپنے آفس میں ایک معمولی سی نوکری دے دی۔ کئ سال گزرے، بارنیس آفس میں سیلزمین کی باتیں سنتا اور اس سے سیکھتا تھا۔

جب ایڈیسن نے ڈیکٹاٹینگ مشین ایجاد کی۔تواس کے سلیزمین پُرجوش نہیں تھے ان کاخیال تھا کہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیں گے اوراس کونہیں خریدیں گے۔ انہوں نے ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے میں بالکل دلچپسی نہ لی۔ بارنیس نے ایڈیسن سے درخواست کی وہ اس ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے کا کام کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے تیار نہ تھے تو ایڈیسن نے بارنیس کو اجازت دے دی۔ بارنیس نے اپنی جان کی بازی لگادی اور ان اصولوں کو استعمال کیا جو اس نےاس آفس میں سنے اور سیکھے تھے۔ وہ کامیاب ہوا ، ایڈیسن نے اس کو پورے امریکہ میں ڈیکٹاٹینگ مشین کے کاروبار کا شریکِِ کار بنا لیا۔

” بیٹا سعدیہ۔ بارنیس ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بننے میں کیوں کامیاب ہوا؟“

سعدیہ کہا”۔ اباجان اگر آپ نے مجھ کواس طرح پہلے بتایا ہوتا تو سمجھ گئ ہوتی۔ یہ تو بالکل صاف معاملہ ہے۔ بارنیس کی یہ خواہش کہ و ہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے خواہشِ مقرر اور شدید تھی۔ وہ مستقل مزاجی اور اصرارِمسلسل سے اس لگن کو مکمل کرنےمیں لگا رہا۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ میں نہ تو انجینئیر ہوں اور نہ ہی میرے پاس شریکِ کاروبار بننے کے لیے سرمایہ ہے اور نہ ہی بیچنے کی تربیت ہے۔ اُس کو یہ لگن تھی کہ وہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے“۔

اباجان نے مجھ سے پوچھا“۔ تمہارا کیا خیال ہے؟

” میرا خیال ہے کہ سعدیہ صحیح سمجھی۔اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ خیالات کےغیرمحسوس بہاؤ کو مادی فائدے یا نتیجہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے“۔

سعدیہ چلائ۔” اباجان میں نے یہ تو نہیں کہا۔ کیا میں نے یہ کہا ماں ؟“

ماں نے کہا۔ ” تم دونوں نے اس بات کو مختلف طر یقے سے دہرایا ہے۔ لیکن تم دونوں نے سمجھا ایک ہی طرح سے ہے۔ تم نے کہا خواہش۔ بھائ نے کہا غیرمحسوس خیال۔ تم نے کہا شدّت۔ بھائ نے کہا بہاؤ۔ تم نے کہا لگن۔ بھائ نے کہا فائدے یا نتیجہ “۔

” اب سوال یہ ہے کہ خیالات کے غیر محسوس بہاؤ یا خواہش کو ایک فائدے یا نتیجہ میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟“۔