صفحہ 2 - تعمیل کا منصوبہ

” کیا ہم پختون ولی کے تمام رسم و رواج چھوڑ دیں؟“ اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

” نہیں ، صرف ’ فرسودہ رسم و رواج‘ کو بدلناہے کیوں کہ پختون ولی میں اچھے رسم و رواج بھی ہیں“۔ میں نے کہا۔

” اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“

” پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کی“ میں نے کہا۔

اباجان نے سعدیہ سے یہی سوال کیا“۔ اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“

سعدیہ نے کہا۔” جب ہم میں سے کسی ایک ملک ، نسل، یا فرقہ پر ظلم ہوتا ہے تو انسان ہونے کی حیثیت سے ہم سب پرلازم ہے کہ اپنے آسائش سے باہر نکلیں اور اس کےخلاف احتجاج کریں۔ یہ میری ذمہ داری ہے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ پاکستان کی عورتوں کی ذمہ داری ہے۔یہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ مظلوم کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اس کےخلاف احتجاج کرے۔ خاص طور پر پختون تعلیم یافتہ لڑکیاں ان کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا“۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” بیٹا، جب تم ان پختون خانزادیوں اور ملک زادیوں سے مسینجر پر بات کرتے ہو تو وہ کیا کہتی ہیں؟”

” اباجان، ہماری شہزادیاں بھی رسم و رواج کے ظلم کا شکار ہیں۔ لیکن ان کو بہتر سہولتیں عطا ہیں اور ان کی زندگی ان کی بہنوں سے بہتر ہے۔ یہ عطائیں اُن کی توجہ کو اس مسئلہ سے دور رکھتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ کوشش کے بعد تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ کوشش کے بعد ان میں سے کچھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرسکتی ہیں۔ان کی شادی ہم عمرکزن سے ہوگی۔ جو ان ہی کی طرح تعلیم یافتہ بھی ہوگا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے زندگی ذرا اچھی ہے“۔

” مگر ان کے دوسرے مسئلے وہی ہیں جس کا شکار ہر پختون عورت ہے“۔

ابا جان نے سعدیہ سے پوچھا کہ کیا اب تم کواس مسئلے کا جواب معلوم ہوا؟

سعدیہ نے کہا ہاں ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار کرنا ہوگا۔

اماں جان نے اپنے نوٹس میں دوسرے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔