صفحہ 2 - خواب

سلام

مسینجرکی کھڑکی کااسکرین ’ کپکپایا ‘۔

” سلام۔ آپ کون ہیں“۔

” بھائ جان اس وقت نہیں ہیں۔ میں ان کی بہن سعدیہ ہوں۔آپ ان کے لیے پیغام چھوڑ دیں“۔ سعدیہ نے جواب دیا۔ ” تم سعدیہ ہوـ“۔ آواز میں خوشی بھی تھی اور غم بھی!

” جی ہاں“

” یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ میں آپ سے ہی بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں یاسمین ہوں۔ ہم آڈیو پہ بات کرتے ہیں“۔

” کیوں؟ “ سعدیہ اس کے لیے تیار نہ تھی۔وہ ا ِنڑنیٹ پر ریسرچ کررہی تھی۔

” میرے، آپ کے اور ہماری سب بہنوں کے مشترک مسئلہ سے متعلق ـ” یاسمین نے کہا۔

” اچھا“۔ اور سعدیہ نے آڈیو کوآن کردیا۔

” میں نے ’داستانِ گل و بلبل‘ پڑھی ـ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ کہانی آپ کے بھائ نے آپ کے یا سکینہ کے یا پھرگل کے لیے لکھی ہے ؟“

” دیکھیں یاسمین۔ آپ میرا وقت برباد کررہی ہیں ـ آپ بھائ جان کے لیے پیغام چھوڑ دیں”۔ سعدیہ نے کہا۔

” نہیں سعدیہ ، تم کومجھےسنناہوگا۔ یہ کہانی میر ے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی میری پاکستانی بہنوں کے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی پختون کی خانزادیوں اور ملک زادیوں کے لیے لکھی گئ ہے۔

تم تو اس کی اکلوتی بہن ہو۔ لیکن وہ ہم سب بہنوں کا اکلوتا بھائ ہے۔ تم اس کی خوشی ہو۔ ہم اس کا غم ہیں۔ تم اس کا پیار ہو۔ ہم سب اس کی جدائ ہیں۔ تم اس کا سُہانا خواب ہو۔ ہم اس کا ڈراؤنا“۔یاسمین نے روتے ہوۓ کہا۔

” جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو میں گھنٹوں روئ۔ میں نےسارا دن کسی سے بات بھی نہ کی۔ میں جرنلسٹ بناچاہتی تھی تاکہ میں دنیا کو میری بہنوں کا حال بتاؤں۔ماں نے کہا بیٹی انجنئیر بن جاؤ اس میں پیسہ ہے۔ میں نے کہا میں وکیل بنوں گی۔ بھائ نے کہا میری بہن عدالت میں مردوں کے سامنے نہیں کھڑی ہوگی۔ سعدیہ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ بھیا سے کہو۔ میں اب تیار ہوں۔ مجھے راہ دکھاۓ۔ مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں؟“