صفحہ 3 - خواب

جھرنے کا مدھم شور فضاء میں گھوم رہا ہے اور پرندوں کی چرچراہٹ گونج رہی ہے۔ ندی کا میٹھا پانی انگڑائ لے کر بہہ رہا ہے۔ ندی کے کنارے حسین پُھول، ساری وادی کی فِضا کو معطّر کررہے ہیں۔ یہ فطرت کی رنگین رَعنائیوں اور دلکش نظاروں سے بھری جگہ ہے۔ ایک عورت ندی کے کنارے بیٹھی گنگنا رہی ہے۔ وہ ایک کتھئ اور لال رنگ کے کشیدہ کاری سے بھری کھٹ "پرتوگ" اور ٹیکریا پہنے اور پاؤں میں سانکڑی پہنے ہے۔ ایک آٹھ یا نوسالہ بچی نزدیک کھڑی ہے۔

میں نے کہا”۔ السلامُ علیکم“

” وعلیکم سلام“۔عورت بولی

” زما نوم سعدیہ دے”

” ستا نوم سہ دے؟“

” زما نامہ نورا دہ“

” تا وا؟“

” چنگا“۔

” ستاد خیل نوم “

” کوہاٹ“

” ستا شکریہ”

اچانک میں ندی میں گری اور ہڑبڑا کرکھڑی ہوگئ۔ بھائ نے سارا کے سارا پانی کا جگ مجھ پر الٹ دیا تھا۔ ” صبح ہوگئ اب اٹھ جاؤ۔تم کو اپنا وعدہ یاد نہیں کہ ہم ابا اور اماں جان سے ’ گل کے مسئلہ ‘ پر بات کریں گے؟“۔ بھائ جان نے بہت زور سے قہقہہ لگایا۔

” بھیا ، مجھ کوسونے دو۔ میں دیر سے سوئ تھی“ اور میں نے کروٹ لےکر دیوارکی طرف منہ کرلیا۔ بھائ جان نے مجھ کوگود میں اٹھا کر باتھ ٹب میں رکھ دیا اور جلدی سے بھاگ گۓ۔