صفحہ 2 - یقین و ایمان
” ہاں“۔ ماں نے کہا۔
” ماں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اباجان سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے“۔
” میں بھی“۔ماں نے کہا۔
” ابا جان۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اماں سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے”۔
” ہاں بیٹا، میں بھی“۔اباجان نے ہنس کر کہا۔
سعدیہ نے وہی جملے دُہراۓ جو کہ اس نے دسیوں دفعہ پہلے بھی دہراۓ تھے۔
ماں اور سعدیہ نے پکنک کا باکس نکال کر کھانا میز پوش پر لگانا شروع کیا۔
میں اور اباجان جھیل کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔
کھانے کے بعد اباجان نے کہا اب ہم اب ’ یقینِ کامل ‘ کا ذکر کریں گے۔
” یقینِ کامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور ان کے مضطرب ہونے کو محسوس کر لیتا ہے اور اس کو روحانی برابری میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اس کو لا محدود حکمت میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ عملِ دعا ہے۔
تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں یقین، لگن اور ہم آغوشئ جذبات سب سے ذیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین ملتے ہیں تو خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیالات ایک دم سے تحت الشعور میں پہنچ کر لامحدود حکمت سے جواب لاتے ہیں۔ ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہ لامحدود حکمت کو جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے”۔ اباجان نے کہا۔
” اباجان ، میں تو صرف 15 سال کی ہوں۔ آپ مجھ سے اردو میں بولیں نا۔ یہ تو یونانی معلوم ہوتی ہے۔ ہے نا بھیا“۔سعدیہ بولی۔
” ہاں اباجان۔ سعدیہ صحیح کہتی ہے“۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے میرا ساتھ دیا۔
اماں جان نے ہنس کر ابو سے کہا۔” بچوں کو کیوں ڈرا رہے ہو؟“