صفحہ 3 - آٹوسجیشن

اباجان نے کھانا منگواتے ہوۓ کہا”۔ آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ سمعی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ اور ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواسِ خمسہ سے دماغ کو ہدایات ملتی ہیں اور دماغ ان پر عمل کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کوخود بھی اس طرح کی ہدایات دے سکتے ہیں۔ آٹوسجیشن یا خود کو دئ ہوئ ہدایات بھی دماغ کے اسی حصے میں پہنچتی ہیں جہاں تحت الشعور کے خیالات پر دماغ عمل کرتا ہے“۔

” وہ غلبہ کرنے والے خیالات جن کو آپ شعور میں رہنے کی جان کر اجازت دیتے ہیں خواہ نفیہ ہوں یا اثباتی ، آٹوسجیشن (خود کو ہدایت دینا) کی میکانیت اُن خیالات کو رضا کارانہ طور پرتحت الشعور میں جانے دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو ان خیالات پرمکمل اختیار دیا ہے۔ یہ انسان پر ہے کہ انسان اس کو اچھے کاموں کے لیے یا بُرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔ اگر آپ کی کوئ خواہش ہے توانتظار نہ کریں کہ جب میرے پاس مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا۔ اس کے حل کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چھٹی حس کی وجہ سے چمکے گا۔ اس کو شاعر آمد، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے“۔

اباجان نے ہم سے سوال کیا۔” اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوکتنے دماغ عطا کیے ہیں“؟

سعدیہ نے کہا۔” ایک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔

میں بولا۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔

شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔

” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“

” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔

” آٹوسجیشن کے استعمال سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟” اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“

خواہش < -- شدت < -- شدیدخواہش (شعور) < -- ( آٹوسجیشن) < -- (تحت الشعور)