صفحہ 3 - خان

” یہ تو کسی کو نہیں معلوم کہ صحیح کیا ہے۔ لیکن پختون اب مسلمان ہیں اور ہم سب کو اسلام یکجا کرتا ہے“۔ سعدیہ نے کہا“۔ مگر ان کے قانون تو اسلام سے مختلف ہیں نا“۔

” بیٹی ہر قوم اور قبیلہ ان اصولوں اور ورچوز کواختیار کرتا ہے جو اس کے بقا کے لیے بہتر ہوں۔virtues کی تبدیلی علمِ حیات اور تہذیب کی نشوونما پر ہے اور ترقی یافتہ قومیں اپنے آپ کو انسانیت کے عروج پر لے جانے کی تمنا اور کوشش کرتی ہیں۔مگر پختون کو اس کا آج تک موقعہ نہیں دیا گیا”۔ ماں نے کہا۔

” کیا تمہیں پتہ ہے کہ پاکستان کے بننے کے59 سال بعد اب بھی پختونخواہ کو پختونخواہ نہیں کہا جاتا۔ اب تک اس کو شمال مغربی صوبہ سرحد کہا جاتا ہے۔ یہ بھی تو بےانصافی ہے“ ۔

میں نے پوچھا۔” لیکن اماں، مجھے اس میں تو بےعقلی نظر آتی ہے کہ عورت اور خاندان کی عزت کواس طرح سے ملانا کہ عورت پر ہی ظلم ہواور عورت کی ہی بےحرمتی ہوتی ہے“ ۔

” بیٹے تم اس کو موجودہ زمانے کےلحاظ سے دیکھو تو یہ معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہے اور دنیا کا ہر شخص تسلیم کرے گا کہ یہ اصول وقت کی ضروریات کےساتھ نہیں بدلا۔اس کوبدلنا تھا۔لیکن ایک وقت عورت اور خاندان کی عزت کو اس طرح سے سلجھانا ایک سنہری اصول تھا اور اس نے قبیلہ کی بقا میں مدد دی۔ مگراب عورت اور خاندان کی عزت کو رکھنے کے لیے ملکی اور عالمی حقوق موجود ہیں“ ۔

” وہ کیسے؟“۔سعدیہ نے پوچھا۔

” ایک زمانہ تھا کہ جرگہ کوامتیازحاصل تھا۔جرگہ ایک روحانی اور اخلاقی جمہوریت تھا۔جرگہ نہ صرف جھگڑ وں کو نمٹا تا تھا بلکہ مخالفت کو بھی ختم کرتاتھا۔ عورت کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر عورت خون خرابے کے بدلے میں دشمن کو دی جائے تو وہ اپنی محبت اور محنت سے دشمن کو دوست میں تبدیل کر دے گی۔لیکن جرگہ کے اصولوں میں وقت کے مطابق تبدیلی نہیں ہوئ“ ۔ اماں نے کہا۔