صفحہ 3 - کامیابی کے اصول۔ ایک نظر ثانی

آنکھیں، کان ، ناک ، منہ ، ہاتھ حواس خمسہ ہیں۔آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ کان کی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواس خمسہ سے دماغ کوترغیب ملتی ہیں اور دماغ ان کا جواب دیتا ہے۔

اباجا ن میری طرف متوجہ ہوۓ۔” کیا ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہم کو مکمل حل ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؟“ میں نے کہا۔” اگر آپ کی کوئ خواہش ہے تواس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ انتظارنہ کریں کہ جب میرے پاس اس کو حل کرنے کے لیے مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا“۔

اباجا ن نے کہا۔ مگر ہمارے پاس اس مسئلہ کا حل بھی موجود نہیں؟“۔

” اس حل یا منصوبہ کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ چھٹی حس کی وجہ سے جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چمکے۔ اس غیبی مدد کو شاعر’ آمد ، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے۔کامیابی کو حاصل کرنے کا پہلا اصول اس مقصد کی خواہش شدید اور دوسرا اصول کامیابی کا یقین ہونا ہے“۔

اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” تعلیم کیا ہے؟ “۔

” علم کاحاصل کرنا ، اس کا سمجھنا اور اور اس کو استعمال کرنا ہے“

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔”علم کی کتنی قسمیں ہیں؟“

” علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم عامہ اورعلم مخصوصہ“۔

” علم عامہ کیا ہے ؟“

” علم عامہ ،علم کا حصول اوراس کو سمجھناہے۔پروفیسر علم کو بخشتے ہیں۔ وہ علم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کمانے میں نہیں کرتے۔ وہ علم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔ ” اور علم مخصوصہ کیا ہے؟“

” علم مخصوصہ ، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں علم کا استعما ل تعلیم مخصوصہ ہے۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔وہ علم مخصوصہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔