صفحہ 4 - سکینہ


سکینہ ہچکیاں لے کر رونے لگی - سعدیہ میں اب سننے کی برداشت نہ رہی۔ وہ زور زور سے روتے ہوۓ کمرے سے چلی گئی۔ میں نے سکینہ سے کہا۔” مگر میں نے توگل سے تھوڑا عرصہ پہلے بات کی ہے“۔ سکینہ نے میری بات کو بلکل نظر انداز کردیا۔

” اللہ حافظ“۔ سکینہ نے سسکیاں لیتے ہوۓ کہا۔

” اللہ حافظ“۔

میں نے سعدیہ کوماں کے کمرے میں پایا۔ اماں اس کو دلاسا دے رہیں تھیں۔ ” سعدیہ کیسی ہے؟“۔

ماں نے کہا کہ اس نےاب رونا بند کیا ہے۔

سعدیہ کھڑے ہوکرمجھ سےلپٹ گئی۔ بھیا آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔ آپ میری بہنوں کواس طرح مرنےنہیں دے سکتے۔ آپ مرد ہیں۔ میں آپ کو اس کا ذمہ دار ٹہراتی ہوں۔ تمام مرد اس کے ذمہ د ار ہیں۔ میں زخمی ہوں۔ میں زخمی ہوں۔میں زخمی ہوں۔ میں تمہاری گُل ہوں۔ تم مجھے بچاؤ۔ میں زخمی ہوں۔

میں نے سعدیہ کوگود میں اٹھاکر ماں کے بستر پرلیٹا دیا۔ اور ماں سرہانے بیٹھ کراپنی انگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔

میں نے سعدیہ کی پسندی کی سی ڈی لگادی۔ اس میں سمندر کی لہروں کی مسمرائ آواز اور پرندوں کی چرچراہت تھی۔

پانچ منٹ کے بعد سعدیہ کی سِسکیاں ختم ہوگیں اور اس کے بعد وہ سوگئی۔

امی آپ نےگیارہ ، بار ہ سالہ بچّی کو چالیس پچاس سال کی عمر کے آدمی کوشادی کے بہانے، بیچنے کے بارے میں سننا ہے؟“

” ہاں اس کو مہر یا ’ سوارہ ‘ کہتے ہیں۔ اسلام نےمہرکےvirtue کواس لۓاختیار کیا تھا کہ مسلمان عورت کوکچھ حد تک مالی خود مختاری اور عزت ملے۔لیکن یہ اب غریبوں کے لے ایک آمدنی کا زریعہ بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ غُربت ہے۔یہ virtue جوایک زمانےمیں اچھائ کا virtueتھا اب زندگی، سماج اور تہذیب کی نشوونما میں برائ بن گیا ہے۔یہاں تک کے اب جس غریب خاندان کے پاس دولت نہیں ہے وہ لڑکیوں کا شادی کے لیے تبادلہ کرتے ہیں۔اس کو ‘ بدل’ کی رسم کہا جاتا ہے”۔