صفحہ 5 - سکینہ


” آپ کا مطلب نہں سمجھ آیا“۔ سعدیہ نے کہا۔

” فرض کرو کہ ہم پختونخواہ میں ایک غریب گھرانا ہیں۔ مجھے تمارے بھیا کی شادی کرنی ہے۔ میں ایک ایسا گھرانا تلاش کرتی ہوں جہاں خاندان میں کم از کم ایک لڑکی اور لڑکا موجود ہیں۔ تمارے بھیا اس لڑکی سے شادی کریں گے اور تم اس خاندان کے ایک لڑکے سے شادی کروگی۔ اس طرح سے غریب لوگ بھی شادی کرسکتے ہیں”۔

” اگر خاندان میں صرف لڑکا یا لڑکی ہو اور دونوں نہ ہوں“۔ سعدیہ نے پوچھا۔

” تو پھرلڑکی والوں کے پا س مہراور سوارہ ہونا چاہیے“۔ ماں نے کہا۔

” امی ہم اگر بھائ جان کی شادی کے لیے ایک لڑکی منگائیں تو کتنے پا کستانی روپوں کی ضرورت ہوگی؟“۔سعدیہ نےمذاق سے پوچھا۔

” پکتیکا کے زُزمت علاقہ میں تم اپنے بھیا کی پچاس ہزار سے دس لاکھ پاکستانی روپوں میں اپنی پسند کی 14 برس کی لڑکی سے شادی کر سکتی ہو۔ یہ امریکن ڈالرمیں 9 سے لے کر16 ہزار ڈالرکے برابر ہیں“۔

” تب تو میں ایک 14 برس کی لڑکی جس کو رشتہ نہ ملتا ہوکم سے کم قیمت میں بھائ جان کے لۓ منگاؤں گی۔ وہ تو میری دوست بن جاۓگی“۔ سعدیہ نے قہقہہ لگا کرکہا۔

میں نے کہا“۔ ماں ہمیں سعدیہ کوکتنی مہرمقرر کرنا چاہیے؟“۔

” سعدیہ کوکوئ بھی نہیں خرید سکتا“۔ ماں نے سنجیدہ ہو کر کہا۔یہ اصول تمام ماؤں کااپنی بیٹیوں کے لیے ہونا چاہیے“۔

” آپ تو یہ کہہ سکتی ہیں کیوں کہ آپ مالی طور پر بہتر ہیں۔لیکن وہ ماں اور باپ ، ایسا نہ کریں توخاندان کے دوسرے بچے بھوک سے مر جائیں گے“۔ میں نے کہا۔

” کیا یہ اصول ، باپ کے لۓ بھی صحیح ہے بھائ جان؟“