صفحہ 6 - سکینہ

” میں کتنا بھی چاہوں کہ یہ صحیح ہے ، لیکن مسلمان لڑکی اور لڑکے کا باپ اس اصول پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ہم مرد اپنی مالی اور جنسی خواہشات کی لیے کتنی مصوم لڑکیوں کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں۔ میں اس پرشرمندہ ہوں اور مجھے اس معاشرے کی برائ کے خلاف حصہ لیناچاہیے“۔

میں نے ماں کوگل کی پوری کہانی بتائ۔ میں نے ماں سے کہا”۔ ہم اسکا الزام صرف غربت کودے رہے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ رسم رواج کا پہلے اور غربت کا بعد میں ہے“۔

ماں نے کہا”۔ تم کیا کروے گے؟“۔

میں نے کہا”۔ میں اپنی بہن کو زخمی نہیں دیکھ سکتا۔ اُس کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ وہ آہستگی کی موت مررہی ہے۔ مجھے دوسری گُلوں کو اس موت سے بچانا ہوگا“۔

اماجان نے کہا۔ ” بیٹا یہ کوئ نیا مسئلہ نہیں ، ہر چیزکی ابتدا گھر سے ہوتی ہے“۔

میں نے کہا۔ ”میں نہیں سمجھا“۔

” پختونخواہ کی تعلیم یافتہ باحیثیت لڑکیوں کو فیصلہ کرناہوگا کہ وہ کب تک خاموش رہئیں گی اور اپنی بہنوں، اپنی پختون قوم کی بچیوں پر یہ ظلم ہونےدیں گی - وہ کب انکی بھلائ کی پروا کریں گی“۔ اماں جان نے کہا۔ ” جب پختون کی بیٹی اپناحق مانگےگی تو پاکستان کی تمام عورتوں کو انکا ساتھ دینا ہوگا۔ اور پھر دنیا کی تمام عورتیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ یہ صرف پختون کی بیٹی کی جدوجہد ہی نہیں ہے۔یہ تمام عورتوں کی جنگ ہے، ہم مختلف محاذوں پر لڑرہے ہیں۔ لیکن یہ محاذ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے“۔

ماں نے کہا ـ” کیا تم جانتے ہو کہ تمارے ملک امریکہ میں کالوں کے تھوڑے سے حقوق تھے۔ 1900 میں ایک 23 سال کی لڑکی نے یہ سب تبدیل کردیا“۔

” وہ کیسے ؟“ میں نے پوچھا۔