صفحہ 6 - گل و بلبل


دوسرے دن ماں نےمجھے نہلا کرصاف کپڑے پہناۓ۔ میرے بالوں میں کنگھی کی۔اور مجھے بہت پیارکیا۔ وہ بہت رویں۔ مجھے پتہ نہیں وہ کیوں رورہی ہیں۔ مگرمیں بھی نہ اپنے آنسوکو روک سکی اور ہم دونوں لپٹ کر بہت دیر تک روۓ۔

شام کو بابا آۓ اورکہا چلو۔ میں نے کہا۔” بابا ،ہم کہاں جارہے ہیں۔ اماں ہمار ے ساتھ نہیں آئیں گی“۔ ابو نے کہا۔” میں تم کوخان صاب کی حویلی میں لے جاتا ہوں۔ وہاں تم کو اچھا کھانا اورصاف سترے کپڑے ملیں گے۔اورتم گھر بار کی چیزیں سیکھوگی۔ بلبل ، اس طرح جب تم بڑی ہوگی تو تماری شادی ہوسکے گی“۔ میں نے روتے ہوکہا۔” بابا میں اماں کے پاس رہوں گی۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی“۔ بابا نے مجھےگِھسیٹنا شروع کیا اور میں نے چلانا شروع کیا“۔

میں اب بھی بھیا کو دروازے سے جاتا اور گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔اب میں اپنے آپ کو بھی بھیا کی طرح گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔

میری ٹہلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔

میں ایک نوجوا ن ہوں جس نے زندگی میں ایک وقت بھی فاقہ نہیں کیا۔جو ایک دن بھی اپنے ماں باپ اور بہن سے جدا نہ ہوا۔ جس کی بہن اس کو ہرگھنٹہ سیلولر فون پرکال کرتی ہے۔اور اگرمیں مصروفیت کی وجہ سے جواب نا دوں تو بیقرار ہو جاتی ہے اورطوفان کھڑا کردیتی ہے۔

” الٰہی میں کیا سن رہا ہوں؟ کیا یہی تیری توفیق اور تیرا انصاف ہے؟ تو دیتا ہے ایک کواورسب کچھ چھین لیتا ہے دوسرے سے“۔

اچانک میں نےگل کی آواز سنی۔

” میں نے میرے بھیا کو آخری بار دیکھا۔ وہ منظر مجھ کو آج بھی اس طرح نظر آتا ہے۔ جیسے پھر سے ہو رہا ہو“۔ گل نے روتے ہوکہا۔

مجھ سے کرسی پر بیٹھا نہ گیا۔ میرے آنسو بہنے لگے۔میں نے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کیا۔

بہت عرصہ گزرا- ایک دن میں اسکول سے واپس آئ تودیکھا کہ ابا ، اماں کولکڑی سےمار رہے ہیں۔ ابا نے اماں کو بہت مارا۔ میں بہت ڈری اور دادی کے پاس بھاگ گئ۔