صفحہ 5 - گل و بلبل


” میں پانچ سال کی تھی ایک دن ماں نے کہا بیٹی تمہارے بھائ کوبابا، مردان کے خان صاب کےہاں لےجارہے ہیں۔ یہ اب خان صاب کے پاس رہ کر کچھ سیکھےگا“۔

میں نے کہا ” بھائ وہاں کیوں جائیں یہاں کیوں نہیں سیکھتے ؟“

میں نے بھائ کاہاتھ پکڑ کر کہا۔” بھائ ! تم مجھ کو چھوڑ کرمت جا ؤ۔ میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟ کس کے ساتھ اس کول جاؤں گی؟ جب بڑے بچےمجھ کوماریں گے توکون مجھ کو بچاۓ گا؟“

سعدیہ کے آنسواب اس کےگالوں پر بہ رہے تھے۔

باپ نےمیرا ہاتھ جھٹک دیا۔ بھیا نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا کرچیخ ماری اور وہ چلایا۔گل،گل“۔ میں بھائ کواب بھی دروازے سےنکلتا دیکھتی ہوں۔ جب میں دروازے پر پہنچی توبابا۔ بھائی کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔

وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔ وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔ وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔ وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔

جیسے سُوئی ایک پُرانے ریکارڈ پر رُک جاتی ہے وہ ایک گِھسّے ہوے ریکارڈ کی طرح ایک جملہ دُہرانے لگی۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ سعدیہ اب رو رہی تھی۔گل رو رہی تھی۔ پھرمیں نےگل کی دھاڑیں مار کر رونے کی آواز سنی۔ میں خاموش رہا۔ میرے پانچ منٹ تک سننے کے وعدے کوگزرے ہو ۓ عرصہ ہو چکا تھا۔ میں اب اس مقام پر تھا جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ مجھےاب اس کہانی کوسننا تھا۔

” میں نے میرے بھیا کو آخری بار دیکھا۔ وہ منظر مجھ کو آج بھی اس طرح نظر آتا ہے۔ جیسے پھر سے ہو رہا ہو“۔ گل نے روتے ہوکہا۔

مجھ سے کرسی پر بیٹھا نہ گیا۔ میرے آنسو بہنے لگے۔میں نے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کیا۔

بہت عرصہ گزرا- ایک دن میں اسکول سے واپس آئ تودیکھا کہ ابا ، اماں کولکڑی سےمار رہے ہیں۔ ابا نے اماں کو بہت مارا۔ میں بہت ڈری اور دادی کے پاس بھاگ گئ۔