صمد کو سراپا صنم دیکھتے ہیں

صمد کو سراپا صنم دیکھتے ہیں
by ساحر دہلوی

صمد کو سراپا صنم دیکھتے ہیں
مسمیٰ کو اسما میں ہم دیکھتے ہیں

تجھے کیف مستی میں ہم دیکھتے ہیں
ثلاثہ نظر کا عدم دیکھتے ہیں

ترا حسن اوصاف ہم دیکھتے ہیں
فنا میں بقا دم بدم دیکھتے ہیں

جو ہیں خالی و پر سے سرمست نغمہ
ہم آہنگیٔ کیف و کم دیکھتے ہیں

نظر گاہ تیری ہے آئینہ دل
تجھے حیرتی ہو کے ہم دیکھتے ہیں

فنا ہے فنا مقتضائے محبت
تقاضائے الفت کو ہم دیکھتے ہیں

غبار دل و دیدہ جو پاک کر دے
ہم اس اشک شبنم کو یم دیکھتے ہیں

اٹھا جب سے پندار ہستی کا پردہ
تجھے نور وحدت میں ہم دیکھتے ہیں

مکین مکاں لا مکانی ہے ساحرؔ
ہم انداز دیر و حرم دیکھتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse