صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے

صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے (1905)
by مرزا آسمان جاہ انجم
317502صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے1905مرزا آسمان جاہ انجم

صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے
ہمارا دل ربا کیا جانے کیا ہے

نہ سنبل ہے نہ کالا ہے نہ ناگن
تری زلف رسا کیا جانے کیا ہے

کسی پہلو نہیں آرام تجھ کو
تجھے اے دل ہوا کیا جانے کیا ہے

نہیں معلوم کعبہ ہے کہ قبلہ
خم ابرو ترا کیا جانے کیا ہے

مرا دل لو گے تم یا جان لو گے
تمہارا عندیہ کیا جانے کیا ہے

جفاؤں سے تری بھرنا نہیں دل
تڑپنے میں مزا کیا جانے کیا ہے

ہمیں تو اس سے ہے امید بخشش
مگر اس کی رضا کیا جانے کیا ہے

نظر پھیری نہیں تو نے تو ہم سے
یہ پھر عشوہ نما کیا جانے کیا ہے

تصور میں جو کی ہیں بند آنکھیں
دکھائی دے رہا کیا جانے کیا ہے

بھلا تو آشنا ہوگا کسی کا
ارے نا آشنا کیا جانے کیا ہے

قیامت ہے قد بالا تمہارا
نگاہ فتنہ را کیا جانے کیا ہے

نکلتا ہے دھواں جو آہ کے ساتھ
یہ اے دل جل رہا کیا جانے کیا ہے

بھلا میں کیا اسے بتلاؤں انجمؔ
وہ مجھ سے پوچھتا کیا جانے کیا ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%B5%D9%86%D9%85_%DB%81%DB%92_%DB%8C%D8%A7_%D8%AE%D8%AF%D8%A7_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%92_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%DB%81%DB%92