صورت سے وہ بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
صورت سے وہ بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
دل پھر بھی طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں
ہر شخص کو بخشی گئی تمییز بد و نیک
ہر شخص زیاں کار ہے معلوم نہیں کیوں
اک چیز کہ سرمایۂ راحت ہے اسے لوگ
کہتے ہیں کہ آزار ہے معلوم نہیں کیوں
پتا بھی اگر ہلتا ہے تو اس کی رضا سے
اور بندہ گنہ گار ہے معلوم نہیں کیوں
دیں دار ہے زاہد کی زباں بھی مرا دل بھی
پھر مفت کی تکرار ہے معلوم نہیں کیوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |