ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں
ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں
نظر مجھے نہیں آتا ہے آفتاب کہیں
وہاں پہ زخم ہیں مشتاق کب سے باتوں کے
زبان تیغ سے ہی دیجئے جواب کہیں
ہنسی ہنسی میں تو وہ قتل عام کرتے ہیں
قیامت آئے جو آئے انہیں عتاب کہیں
لگا کے اس کو کلیجے سے رکھتے اے قاتل
جو تیرے تیر کا ملتا ہمیں جواب کہیں
شب وصال میں صفدرؔ کو تم نہ ترساؤ
اٹھا بھی دو رخ پر نور سے نقاب کہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |