طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے
پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گزرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے
چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میرؔ کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |