طرفہ معجون ہے ہمارا یار

طرفہ معجون ہے ہمارا یار
by شیخ ظہور الدین حاتم

طرفہ معجون ہے ہمارا یار
غیر سے ہم کنار ہم سے کنار

ہم کہیں باغ چل تو ہاں نہ کہے
غیر کے ساتھ روز سیر و شکار

ہم کو مجلس میں دیکھ چپ ہو جائے
غیر سے ٹوک کر کرے گفتار

ہم کو دیکھے کہیں تو آنکھیں چرائے
غیر کو دیکھ کر آپ سے ہو دو چار

غیر سے صاف سینہ ہو کے ملے
ہم سے دل میں رکھے ہمیشہ غبار

غیر جور و جفا و بے مہری
ہم سے اس کا نہیں ہے اور شعار

غیر کی بات سن کے خوش ہووے
ہم سے ہر بات میں کرے تکرار

منت و عجز و انکسار و نیاز
کرتے کرتے ہوئے بہت لاچار

وہ کسی طرح آشنا ہی نہیں
امتحاں ہم کیا ہے چندیں یار

ذرا بھی کان دھر کبھو نہ سنے
درد دل ہم اگر کریں اظہار

جان اور مال دے چکیں اس کو
دل سے جانے ہمیں اگر غم خوار

جو رہے ہم سے روز بیگانہ
صحبت ایسے سے کیسے ہو برار

کر الٰہی تو مہرباں اس کو
جس کے پیچھے ہوئے ہیں زار و نزار

غرض اب شکوہ کب تلک کیجے
چپ ہی رہنا ہے حاتمؔ اب درکار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse