ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو
ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو
جو دم ہے غنیمت ہے کہ پھر رات ہے اور تو
اک ہم سے ہی ملنے میں تأمل ہے وگرنہ
غیروں سے وہی تیری ملاقات ہے اور تو
یاں روز سیاہ و شب تاریک ہے اور ہم
واں آئینۂ باغ طلسمات ہے اور تو
مر جانے کی جا ہے کہ صنم دو دو پہر تک
ہر اک سے سر بام اشارات ہے اور تو
سو باتیں ہوئیں تو نہ ملا اپنے سے اے دل
کیا بات ہے تیری کہ وہی بات ہے اور تو
نے حور نہ انساں نہ پری اور نہ فرشتہ
جس حسن و صباحت میں تری گات ہے اور تو
زندان فراق و لب خاموش ہے اور ہم
سیر چمن و حرف و حکایات ہے اور تو
ہووے گا نہ یہ ہستئ فانی کا بکھیڑا
اک روز یہ ہوگا کہ تری ذات ہے اور تو
نومید نہ ہو ہجر میں اے مصحفیؔ اس سے
دو دن کو وہی لطف و عنایات ہے اور تو
کڑھ مت کہ فراغت کی بھی آ جائے ہے ساعت
پھر مان دوانے وہی اوقات ہے اور تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |