عاشقو پاؤں نہ اکھڑے وہیں ٹھہرے رہنا
عاشقو پاؤں نہ اکھڑے وہیں ٹھہرے رہنا
پردہ اٹھتا ہے رخ یار سے سنبھلے رہنا
عرش پر سے بھی تمہیں کھینچ کے لے آئے گی
کشش عاشق بیتاب سے بچتے رہنا
تڑپ اٹھا دل بے تاب کسی عاشق کا
یہ مرا فرض ہے کہہ دیتا ہوں بچتے رہنا
ڈوب کر بحر محبت میں نکلنا کیسا
پار ہونے کی تمنا ہے تو ڈوبے رہنا
معرکے سے نہیں ہٹتا کوئی عاشق پیچھے
سر ہتھیلی پہ دھرے آگے ہی بڑھتے رہنا
نظر آ جائے جو وہ توبہ شکن اے اکبرؔ
دل کو ہاتھوں سے دبائے ہوئے بیٹھے رہنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |