عاشق زلف و رخ دلدار آنکھیں ہو گئیں

عاشق زلف و رخ دلدار آنکھیں ہو گئیں
by خواجہ محمد وزیر
316478عاشق زلف و رخ دلدار آنکھیں ہو گئیںخواجہ محمد وزیر

عاشق زلف و رخ دلدار آنکھیں ہو گئیں
مبتلائے کافر و دیندار آنکھیں ہو گئیں

سرخ پلکیں ہو گئیں خوں بار آنکھیں ہو گئیں
دیکھ لو اب زخم دامن دار آنکھیں ہو گئیں

دیکھ کر محو جمال یار آنکھیں ہو گئیں
جام ہائے شربت دیدار آنکھیں ہو گئیں

آئیو اے اشک اب بہنے لگا ہے خون گرم
بھیجیو پانی کہ آتش بار آنکھیں ہو گئیں

لڑ گئیں تم سے جو آنکھیں ہو گئی اک بار صلح
کیجئے دو تین باتیں چار آنکھیں ہو گئیں

کشتیٔ مے لے کے اے ساقی پہنچ بہر خدا
بے ترے محفل میں دریا بار آنکھیں ہو گئیں

ہے تصور بسکہ آنکھوں میں خط رخسار کا
آئنے کی طرح جوہر دار آنکھیں ہو گئیں

اے بت کافر ہے بس بے عیب ذات اللہ کی
لب ترے عیسیٰ ہوئے بیمار آنکھیں ہو گئیں

بہہ گئیں پلکیں برنگ خس مری اشکوں کے ساتھ
اب تو نظروں میں گل بے خار آنکھیں ہو گئیں

چشم بددور ان کو گردش ہے عجب انداز سے
اے پری آہوئے خوش رفتار آنکھیں ہو گئیں

میرے پاؤں کی طرح ہیہات اب گردش میں ہیں
کس کی یہ وارفتۂ رفتار آنکھیں ہو گئیں

عین نادانی ہے اب ان سے جو رکھیے چشم داشت
شکل مژگاں پھر گئیں بیزار آنکھیں ہو گئیں

لخت دل یاقوت میں آنسو ہیں موتی آب دار
آؤ دیکھو جوہری بازار آنکھیں ہو گئیں

دو تو ہیں چشم سخن گو گر نہیں ہے اک دہن
چپ نہ رہیے قابل گفتار آنکھیں ہو گئیں

عشق پنہاں دیدۂ گریاں نے ظاہر کر دیا
ہنسنے کی جا ہے لب اظہار آنکھیں ہو گئیں

ابلق چشم صنم کس ناز سے گردش میں ہے
خوب کاوے ہوتے ہیں رہوار آنکھیں ہو گئیں

ہر کسی نے آنکھ جب ڈالی گلوئے صاف پر
ہنس کے فرمایا گلے کا ہار آنکھیں ہو گئیں

تول لیتے ہیں سدا نظروں میں جنس حسن کو
پلۂ میزاں مری اے یار آنکھیں ہو گئیں

ہے تصور روز و شب کس کی طلائی رنگ کا
چشم نرگس کی طرح زردار آنکھیں ہو گئیں

کہتے ہو سب دیکھتے ہیں تیری آنکھوں سے مجھے
سچ کہو اغیار کی بے کار آنکھیں ہو گئیں

چلیے اب صحرا سے کوئے یار انہیں دکھلائیے
آبلوں سے پاؤں میں دو چار آنکھیں ہو گئیں

پھول نرگس کے بنائے کب وہاں معمار نے
یہ ہماری نقش بر دیوار آنکھیں ہو گئیں

اے خدا شاہد ہمارا ثم وجہ اللہ ہے
جب نگہ کی بت پہ تجھ سے چار آنکھیں ہو گئیں

آپ سا ان کو بنایا عشق تیر یار نے
ہے سری تار نگہ سوفار آنکھیں ہو گئیں

پیش نرگس ہاتھ پھیلائے ہیں شاخوں سے درخت
کس کو دیکھیں گے جو اب درکار آنکھیں ہو گئیں

چپ کھڑے ہیں بن گئے ہیں نقش بر دیوار ہم
آؤ دیکھو روزن دیوار آنکھیں ہو گئیں

ساقی و مینا و ساغر ایک آتے ہیں نظر
بادۂ وحدت سے کیا سرشار آنکھیں ہو گئیں

روتے روتے ہجر میں سوجے ہیں یہ چشمان تر
جسم لاغر ہو گیا طیار آنکھیں ہو گئیں

عاشق ابرو ہوں کرنا دیدہ و دانستہ قتل
جوہروں سے تجھ میں اے تلوار آنکھیں ہو گئیں

آنکھ کے ڈوروں نے تیرے کچھ تو ہیں دھاگے دیے
اے صنم جو مائل زنار آنکھیں ہو گئیں

پھر گیا وہ آ کے اب جاگے تو کیا حاصل وزیرؔ
سو گئے جب بخت تب بیدار آنکھیں ہو گئیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.