عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
by بیخود دہلوی

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں رکھتے

سر رکھتے ہیں سر میں نہیں سودائے محبت
دل رکھتے ہیں دل میں کوئی ارماں نہیں رکھتے

نفرت ہے کچھ ایسی انہیں آشفتہ سروں سے
اپنی بھی وہ زلفوں کو پریشاں نہیں رکھتے

رکھنے کو تو رکھتے ہیں خبر سارے جہاں کی
اک میرے ہی دل کی وہ خبر ہاں نہیں رکھتے

گھر کر گئیں دل میں وہ محبت کی نگاہیں
ان تیروں کا زخمی ہوں جو پیکاں نہیں رکھتے

دل دے کوئی تم کو تو کس امید پر اب دے
تم دل تو کسی کا بھی مری جاں نہیں رکھتے

رہتا ہے نگہبان مرا ان کا تصور
وہ مجھ کو اکیلا شب ہجراں نہیں رکھتے

دشمن تو بہت حضرت ناصح ہیں ہمارے
ہاں دوست کوئی آپ سا ناداں نہیں رکھتے

دل ہو جو پریشان تو دم بھر بھی نہ ٹھہرے
کچھ باندھ کے تو گیسوئے پیچاں نہیں رکھتے

گو اور بھی عاشق ہیں زمانے میں بہت سے
بیخودؔ کی طرح عشق کو پنہاں نہیں رکھتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse