عبث عبث تجھے مجھ سے حجاب آتا ہے
عبث عبث تجھے مجھ سے حجاب آتا ہے
ترے لیے کوئی خانہ خراب آتا ہے
پلک کے مارتے ہستی تمام ہوتی ہے
عبث کو بحر عدم سے حباب آتا ہے
خدا ہی جانے جلایا ہے کس ستم گر نے
جگر تو چشم سے ہو کر کباب آتا ہے
شب فراق میں اکثر میں لے کے آئینہ
یہ دیکھتا ہوں کہ آنکھوں میں خواب آتا ہے
نظر کروں ہوں تو یاں خواب کا خیال نہیں
گرے ہے لخت جگر یا کہ آب آتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |