عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا
عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا
جگ کے خرابہ اندر اک خوار تھا سو میں تھا
داخل شہیدوں میں تو لوہو لگا کے سب تھے
شمشیر ناز سے پر افگار تھا سو میں تھا
سنبل کے پیچ میں دل تیرے نہ تھا کسی کا
نرگس کا ایک تیری بیمار تھا سو میں تھا
تجھ گھر میں عرض مطلب کس کی نہ تھا زباں پر
در پر جو تیرے نقش دیوار تھا سو میں تھا
داغ محبت اے گل جب تھا ترا نہ جگ میں
داغوں سے جس کا سینہ گلزار تھا سو میں تھا
گو عشق کے تمہارے عشاق اب مقر ہیں
اول زباں پہ جس کی اقرار تھا سو میں تھا
تجھ عشق میں نصیحت سب یار مانتے تھے
ناصح کے پر سخن سے بے زار تھا سو میں تھا
اس مے کدے میں گاہے اے سوزؔ ہم نہ بہکے
سب مست و بے خبر تھے ہشیار تھا سو میں تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |