عشاق میں نام ہو چکا ہے
عشاق میں نام ہو چکا ہے
کیفیؔ بدنام ہو چکا ہے
کیا پوچھتے ہو مریض غم کو
کام اس کا تمام ہو چکا ہے
عاشق کا نہ امتحاں لو وہ تو
بندۂ بے دام ہو چکا ہے
کیوں ہم سے نہ منہ چھپا کے جائیں
ہاں آپ کا کام ہو چکا ہے
کیا کام ہمیں رہا کسی سے
جب اپنا ہی کام ہو چکا ہے
کیفیؔ کب تک یہ خواب غفلت
مہر لب بام ہو چکا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |