عشرتیؔ گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
عشرتیؔ گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزا بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرنوں میں وہاں
سایۂ کفر پڑا نور خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
کیسے کیسے دل نازک کو دکھایا تم نے
خبر فیصلۂ روز جزا بھول گئے
بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جود و عطا بھول گئے
نقل مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ کہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو
جب کہ بوڑھے روش دین خدا بھول گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |