عشرت تنہائی

عشرت تنہائی
by مجاز لکھنوی

میں کہ مے خانۂ الفت کا پرانا مے خوار
محفل حسن کا اک مطرب شیریں گفتار
ماہ پاروں کا ہدف زہرہ جبینوں کا شکار
نغمہ پیرا و نواسنج و غزل خواں ہوں میں

کتنے دلکش مرے بت خانۂ ایماں کے صنم
وہ کلیساؤں کے آہو وہ غزالان حرم
میں ہمہ شوق و محبت وہ ہمہ لطف و کرم
مرکز مرحمت محفل خوباں ہوں میں

موجزن ہے مئے عشرت مرے پیمانوں میں
یاس کا درد ہے کم تر مرے افسانوں میں
کامرانی ہے پرافشاں مرے رومانوں میں
یاس کی سعئ جنوں خیز پہ خنداں ہوں میں

میرے افکار میں مہتاب کی طلعت غلطاں
میری گفتار میں ہے صبح کی نزہت غلطاں
میرے اشعار میں ہے پھولوں کی نکہت غلطاں
روح گل زار ہوں میں جان گلستاں ہوں میں

لاکھ مجبور ہوں میں ذوق خود آرائی سے
دل ہے بیزار اب اس عشرت تنہائی سے
آنکھ مجبور نہیں ہے مری بینائی سے
محرم درد و غم عالم انساں ہوں میں

کیوں نہ چاہوں کہ ہر اک ہاتھ میں پیمانہ ہو
یاس و محرومی و مجبوری اک افسانہ ہو
عام اب فیض مے و ساقی و مے خانہ ہو
رند ہوں اور جگر گوشۂ رنداں ہوں میں

اب یہ ارماں کہ بدل جائے جہاں کا دستور
ایک اک آنکھ میں ہو عیش و فراغت کا سرور
ایک اک جسم پہ ہو اطلس و کمخواب و سمور
اب یہ بات اور ہے خود چاک گریباں ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse