عشق بیتاب جاں گدازی ہے
عشق بیتاب جاں گدازی ہے
حسن مشتاق دل نوازی ہے
اشک خونیں سوں جو کیا ہے وضو
مذہب عشق میں نمازی ہے
جو ہوا راز عشق سوں آگاہ
وو زمانے کا فخر رازی ہے
پاک بازاں سوں یوں ہوا مفہوم
عشق مضمون پاک بازی ہے
جا کے پہنچی ہے حد ظلمت کوں
بسکہ تجھ زلف میں درازی ہے
تجربے سوں ہوا مجھے ظاہر
ناز مفہوم بے نیازی ہے
اے ولیؔ عیش ظاہری کا سبب
جلوۂ شاہد مجازی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |