عشق تو مشکل ہے اے دل کون کہتا سہل ہے
عشق تو مشکل ہے اے دل کون کہتا سہل ہے
لیک نادانی سے اپنی تو نے سمجھا سہل ہے
گر کھلے دل کی گرہ تجھ سے تو ہم جانیں تجھے
اے صبا غنچے کا عقدہ کھول دینا سہل ہے
ہمدمو دل کے لگانے میں کہو لگتا ہے کیا
پر چھڑانا اس کا مشکل ہے لگانا سہل ہے
گرچہ مشکل ہے بہت میرا علاج درد دل
پر جو تو چاہے تو اے رشک مسیحا سہل ہے
ہے بہت دشوار مرنا یہ سنا کرتے تھے ہم
پر جدائی میں تری ہم نے جو دیکھا سہل ہے
شمع نے جل کر جلایا بزم میں پروانے کو
بن جلے اپنے جلانا کیا کسی کا سہل ہے
عشق کا رستہ سراسر ہے دم شمشیر پر
بوالہوس اس راہ میں رکھنا قدم کیا سہل ہے
اے ظفرؔ کچھ ہو سکے تو فکر کر عقبیٰ کا تو
کر نہ دنیا کا تردد کار دنیا سہل ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |