عشق سے بچ کے کدھر جائیں گے ہم
عشق سے بچ کے کدھر جائیں گے ہم
ہے یہ موجود جدھر جائیں گے ہم
تن کے بس رکھئے قبضہ پر ہاتھ
دیکھیے مفت میں ڈر جائیں گے ہم
تیری دہلیز پر اپنے سر کو
ایک دن کاٹ کے دھر جائیں گے ہم
وہ یہ کہتے ہیں نہ دے دل ہم کو
دیکھ لیتے ہی مکر جائیں گے ہم
منع کرتے ہو عبث یارو آج
اس کے گھر جائیں گے پر جائیں گے ہم
دل کی لینی ہے خبر ہم کو ضرور
آج تو پھر بھی ادھر جائیں گے ہم
دم کہیں لیں گے نہ پھر تا بہ عدم
تیرے کوچہ سے اگر جائیں گے ہم
تو نہ گزرے گا جفا سے ظالم
جان سے اپنی گزر جائیں گے ہم
زیست باقی ہے تو اپنا رنگیںؔ
نام اس عشق میں کر جائیں گے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |