عشق میں صبر و رضا درکار ہے
عشق میں صبر و رضا درکار ہے
فکر اسباب وفا درکار ہے
چاک کرنے جامۂ صبر و قرار
دلبر رنگیں قبا درکار ہے
ہر صنم تسخیر دل کیونکر سکے
دل ربائی کوں ادا درکار ہے
زلف کوں وا کر کہ شاہ عشق کوں
سایۂ بال ہما درکار ہے
رکھ قدم مجھ دیدۂ خوں بار پر
گر تجھے رنگ حنا درکار ہے
دیکھ اس کی چشم شہلا کوں اگر
نرگس باغ حیا درکار ہے
عزم اس کے وصل کا ہے اے ولیؔ
لیکن امداد خدا درکار ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |