عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع

عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
by میر تقی میر

عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع

کب تلک ان بتوں سے چشم رہے
ہو رہے گا بس اب خدا سے نفع

میں تو غیر از ضرر نہ دیکھا کچھ
ڈھونڈھو تم یار و آشنا سے نفع

مغتنم جان گر کسو کے تئیں
پہنچے ہے تیرے دست و پا سے نفع

اب فقیروں سے کہہ حقیقت دل
میرؔ شاید کہ ہو دعا سے نفع

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse