عشق نے چٹکی سی لی پھر آ کے میری جاں کے بیچ
عشق نے چٹکی سی لی پھر آ کے میری جاں کے بیچ
آگ سی کچھ لگ گئی ہے سینۂ بریاں کے بیچ
اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو
ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ
اس سبب میں جنگ شانے سے کروں ہوں بار بار
دل ہوا ہے گم مرا اس کاکل پیچاں کے بیچ
زلف و چشم و خال و خط چاروں ہیں دشمن دین کے
حق رکھے ایماں سلامت ایسے کفرستاں کے بیچ
نقد دل کھویا ہے ہم نے جان کر اس راہ میں
فی الحقیقت عاشقوں کو سود ہے نقصاں کے بیچ
گر عدو میری بدی کرتا ہے خاص و عام میں
میں اسے رسوا کروں گا باندھ کر دیواں کے بیچ
رات دن جاری ہے عالم میں مرا فیض سخن
گو کہ ہوں محتاج پر حاتمؔ ہوں ہندوستاں کے بیچ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |