عشق کا اختتام کرتے ہیں
عشق کا اختتام کرتے ہیں
دل کا قصہ تمام کرتے ہیں
قہر ہے قتل عام کرتے ہیں
ترک ترکی تمام کرتے ہیں
طاق ابرو سے ان کے در گزرے
ہم یہیں سے سلام کرتے ہیں
شیخ اس سے پناہ مانگتے ہیں
برہمن رام رام کرتے ہیں
جوہری پر ترے در دنداں
آب و دانہ حرام کرتے ہیں
خط قسمت پڑھا نہیں جاتا
صرف منطق تمام کرتے ہیں
یا الٰہی حلال ہوں واعظ
دخت رز حرام کرتے ہیں
آپ کی منہ لگی ہے دختر رز
باتیں ہونٹوں سے جام کرتے ہیں
چلی دنیا سے ہم پئے عقبیٰ
کوچ بھر مقام کرتے ہیں
اپنے دل پر ہے اختیار ہمیں
ملک کا انتظام کرتے ہیں
قابل گفتگو رقیب نہیں
آپ کس سے کلام کرتے ہیں
رات بھر میرے نالۂ پر درد
نیند ان کی حرام کرتے ہیں
ظلم ہی احمقوں کی منہ زوری
تنگ یہ بے لگام کرتے ہیں
دل سے رنگ دوئی مٹاتے ہیں
زخم کا التیام کرتے ہیں
اے صباؔ کیوں کسی کا دل توڑیں
کعبے کا احترام کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |